Friday, 20 April 2018

shahkar



شاہکار

یہ لفظ سنتے ہی ہر کسی کے ذہن میں ایک عکس بن جاتا ہے اب یہ ہر کسی کے سوچنے پر منحصر کرتا ہے کہ وہ اس لفظ سے کس چیز کا عکس اپنے ذہن میں مربوط کرتا ہے. اس لفظ کے ہر زاویے میں اپنی ایک ہم آہنگی ہے اور جوبصورت تناسب ہے. جو منفرد بھی ہے اور مربوط بھی، اس لفظ کا ہر پہلو حیران کن ہے. جس کا ظاہر بھی حیران کن ہے اور باطن بھی،
لیکن اسکا ہر پہلو مکمل ہونے کے باوجود اپنی منزل پر آنے سے پہلے اور بعد تک ایک سوال ہی رہتا ہے، دوسروں کے لیے بھی اور اپنے لیے بھی، جس کے بارے میں کوئی بھی واضح طور پر  نہیں کہہ سکتا. کیونکہ ہر کسی کا دماغ تو نہی ہم پڑھ نہیں سکتے نہ اسکے دماغ میں جھانک سکتے ہیں. یہ کائنات خدا نے ضرور بنائی ہے مگر اسکی پہچان انسان کرتا ہے. اتنے مشاہدے کے بعد بھی انسان اس کائنات کا عکس اپنے ذہن میں نہیں بنا سکتا جو صرف انسان کے لیے ہی بنائی گئی ہے. یہ سوچ انسان کی سوچ پر آ کر رک جاتی ہے. ساری کائنات کا مطالعہ کرنے کے بعد بھی مخلوق انسان پر آ کر رک جاتی ہے اور انسان کے بارے میں کئی سوال سر اٹھانے لگتے ہیں.
انسان کیا ہے؟
اسے خود بھی نہیں معلوم!
اسکو خدا نے کس چیز سے بنایا ہے مٹی یا نطفے سے؟
کوئی بھی مکمل طور پر ٹھیک طرح سے بیان نہیں کر سکتا اس کے اندر کیا پوشیدہ ہے. انسان کو کس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے، اس کا عکس ایسا کیوں تخلیق کیا گیا ہے، ضرورت تو اشرف و مخلوق سے بھی پوری ہو سکتی تھی تو انسان کو تخلیق کرنے کا مقصد..؟
 د نیا آج چاہے جتنے بڑے علم سے آگاہ کیوں نہ ہو لیکن وہ اس بات کا واضح جواب دینے سی قاصر ہے کہ انسان اگلے لمحے کیا کرے گا کیونکہ اسے خود بھی نہیں پتہ وہ کیا کرے گا، ہم اکثر سوچتے ہیں اگر ہم کچھ بھی کرتے ہیں تو وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے تو ایسا کہنا غلط ہو گا کیونکہ سوچنے کی صلاحیت تو خدا نے انسان کو دی ہےپراس پر کسی کو ہاوی نہیں کیا گیا اب یہ انسان پر منحصر کرتا ہے کہ وہ اپنے ذہن کو کس قدر اچھی باتوں کی طرف لے کر جاتا ہے. اس کے ظاہر اور باطن میں تضاد کیوں؟
 اسکا اسے خود کوئی علم نہیں وہ آنے والی زندگی میں کیا کرے گا، کیا ہونے والا ہے اسے کس غلطی کی سزا ملنے والی ہے. اسے کچھ معلوم نہیں. کیونکہ انسان ایک منٹ پہلے جو سوچتا ہے دوسرے ہی لمحے وہ شاید اس بات کو سوچنا بھی نہ چاہے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ انسانی سوچ بدلتی رہتی ہے ہر لمحے نئ سوچ، نئے خیالات، احساسات، جذبات اس پر اثر انداز ہو تے رہتے ہیں.اپنی پیدائش سے لے کر موت تک وہ اپنے اور دوسروں کے لیے ایک سوال بن کر رہ جاتا ہے.
اس کا آغاز بھی مبہم ہے اور انجام بھی ایک راز ہے. اسکے اپنے دعوے بھی کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں. اس کی سوچیں اسے قدم قدم پر مات دیتی ہیں. کبھی کبھی اسکی بڑی بڑی منصوبہ بندی بھی ناکام کر دیتی ہے اور کبھی کبھی معمولی کوشش بھی اسکو بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے. بعض اوقات انسانوں کی اکثریت اپنے شکوے شکایت پر واویلا کرتی ہے سوائے چند لوگوں کے جو اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہیں.
آج کا انسان اپنے آپ سے بھی مایوس نظر آتا ہے اور خدا سے بھی. اور یہ اس دور کا بہت بڑا المیہ ہے کہ بے شمار خوبیوں کا انسان نا امید ہو جائے اور وہ نا امید تب ہی ہوتا ہے جب اسکا ایمان اسکی ہستی سےاٹھنے لگے. وہ ہستی جو اس کائنات کو نیست و نابود بھی کر سکتی ہے اور ویرانوں کو آباد بھی کر سکتی ہے. جب جب انسان خدا کی طرف امید سے دیکھے گا تب تب اسکی مشکل راہیں آسان ہونگی. ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ انسان کا خدا پر یقین کامل ہو. اسکے بغیر انسان کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا.
شمائلہ انم


shahkar

شاہکار یہ لفظ سنتے ہی ہر کسی کے ذہن میں ایک عکس بن جاتا ہے اب یہ ہر کسی کے سوچنے پر منحصر کرتا ہے کہ وہ اس لفظ سے کس چیز کا عکس ...